EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اس مسافر کی نقاہت کا ٹھکانہ کیا ہے
سنگ منزل جسے دیوار نظر آنے لگے

سیف الدین سیف




یہ آلام ہستی یہ دور زمانہ
تو کیا اب تمہیں بھول جانا پڑے گا

سیف الدین سیف




زندگی کس طرح کٹے گی سیفؔ
رات کٹتی نظر نہیں آتی

سیف الدین سیف




آج سوچا ہے کہ خود رستے بنانا سیکھ لوں
اس طرح تو عمر ساری سوچتی رہ جاؤں گی

صائمہ اسما




ایسا کیا اندھیر مچا ہے میرے زخم نہیں بھرتے
لوگ تو پارہ پارہ ہو کر جڑ جاتے ہیں لمحے میں

صائمہ اسما




جانے پھر منہ میں زباں رکھنے کا مصرف کیا ہے
جو کہا چاہتے ہیں وہ تو نہیں کہہ سکتے

صائمہ اسما




کبھی کبھی تو اچھا خاصا چلتے چلتے
یوں لگتا ہے آگے رستہ کوئی نہیں ہے

صائمہ اسما