خالی ہاتھوں میں محبت بانٹتی رہ جاؤں گی
اپنے خالی ہاتھ آخر دیکھتی رہ جاؤں گی
کوچ کر جائیں گے سب دشت وفا سے قافلے
خواب آنکھوں میں لئے میں سوئی ہی رہ جاؤں گی
بھول جائے گا کوئی مجھ کو بجھانے کا ہنر
صبح بھی آئی تو شب بھر سے جلی رہ جاؤں گی
پاؤں گی جرم محبت کی انوکھی سی سزا
وقت کے ہونٹوں پہ میں اک ان کہی رہ جاؤں گی
تم نے چھوڑا ہے تو رستے اور روشن ہو گئے
تم یہ سمجھے تھے کہ رستے میں کھڑی رہ جاؤں گی
وسعت افلاک میں بھی نسبت زہرہ کہاں
ٹوٹ کر بھی لمحہ بھر کی روشنی رہ جاؤں گی
آج سوچا ہے کہ خود رستے بنانا سیکھ لوں
اس طرح تو عمر ساری سوچتی رہ جاؤں گی
غزل
خالی ہاتھوں میں محبت بانٹتی رہ جاؤں گی
صائمہ اسما