EN हिंदी
صبح سے شام کے آثار نظر آنے لگے | شیح شیری
subh se sham ke aasar nazar aane lage

غزل

صبح سے شام کے آثار نظر آنے لگے

سیف الدین سیف

;

صبح سے شام کے آثار نظر آنے لگے
پھر سہارے مجھے بے کار نظر آنے لگے

اس مسافر کی نقاہت کا ٹھکانہ کیا ہے
سنگ منزل جسے دیوار نظر آنے لگے

ان کے جوہر بھی کھلے اپنی حقیقت بھی کھلی
ہم سے کھنچتے ہی وہ تلوار نظر آنے لگے

مرے ہوتے دل مشتاق ستم کے ہوتے
یار منت کش اغیار نظر آنے لگے

سیفؔ اتنا بھی نہ کر ضبط کہ پھر ان کے حضور
خامشی درد کا اظہار نظر آنے لگے