EN हिंदी
اس رستے پر جاتے دیکھا کوئی نہیں ہے | شیح شیری
us raste par jate dekha koi nahin hai

غزل

اس رستے پر جاتے دیکھا کوئی نہیں ہے

صائمہ اسما

;

اس رستے پر جاتے دیکھا کوئی نہیں ہے
گھر ہے اک اور اس میں رہتا کوئی نہیں ہے

کبھی کبھی تو اچھا خاصا چلتے چلتے
یوں لگتا ہے آگے رستہ کوئی نہیں ہے

ایک سہیلی باغ میں بیٹھی روتی جائے
کہتی جائے ساتھی میرا کوئی نہیں ہے

مہر و وفا قربانی قصوں کی ہیں باتیں
سچی بات تو یہ ہے ایسا کوئی نہیں ہے

دیکھ کے تم کو اک الجھن میں پڑ جاتی ہوں
میں کہتی تھی اتنا اچھا کوئی نہیں ہے

اس کی وفاداری مشکوک ٹھہر جاتی ہے
کار وفا میں دشمن جس کا کوئی نہیں ہے