سنتے رہتے ہیں فقط کچھ وہ نہیں کہہ سکتے
آئنوں سے جو کہیں ان کو نہیں کہہ سکتے
ان کے لہجے میں کوئی اور ہی بولا ہوگا
مجھے لگتا ہے کہ ایسا وہ نہیں کہہ سکتے
شہر میں ایک دوانے سے کہلواتے ہیں
اہل پندار مرے خود جو نہیں کہہ سکتے
یوں تو مل جانے کو دم ساز کئی مل جائیں
دل کی باتیں ہیں ہر اک سے تو نہیں کہہ سکتے
جانے پھر منہ میں زباں رکھنے کا مصرف کیا ہے
جو کہا چاہتے ہیں وہ تو نہیں کہہ سکتے
غزل
سنتے رہتے ہیں فقط کچھ وہ نہیں کہہ سکتے
صائمہ اسما