EN हिंदी
کچھ بے نام تعلق جن کو نام اچھا سا دینے میں | شیح شیری
kuchh be-nam talluq jinko nam achchha sa dene mein

غزل

کچھ بے نام تعلق جن کو نام اچھا سا دینے میں

صائمہ اسما

;

کچھ بے نام تعلق جن کو نام اچھا سا دینے میں
میں تو ساری بکھر گئی ہوں گھر کو اکٹھا رکھنے میں

دائرہ منفی مثبت کا تو اپنی جگہ مکمل ہے
کوئی برقی رو دوڑا دے اس بے جان سے ناطے میں

کون احساس کی لو بخشے گا روکھے پھیکے منظر کو
کون پروئے گا جذبوں کے موتی حرف کے دھاگے میں

ایسا کیا اندھیر مچا ہے میرے زخم نہیں بھرتے
لوگ تو پارہ پارہ ہو کر جڑ جاتے ہیں لمحے میں

رنج کی اک بے موسم ٹہنی دل سے یوں پیوستہ ہے
پوری شاخ ہری ہو جائے ایک سرا چھو لینے میں

اوپر سے خاموشی اوڑھ کے پھرتے ہیں جو لوگ وہی
دھجی دھجی پھرتے ہیں اندر کے پاگل خانے میں

سیلابوں کی ریت سے جس کو تو نے عبث نمناک کیا
دھیرے بہتا اک دریا بن اس صحرا کے سینے میں

بارش ایک پڑے تو باہر آپے سے ہو جاتی ہے
جس مخلوق نے آنکھیں کھولیں دھرتی کے تہہ خانے میں