EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

میسر خود نگہ داری کی آسائش نہیں رہتی
محبت میں تو پیش و پس کی گنجائش نہیں رہتی

صائمہ اسما




نہ جانے کیسی نگاہوں سے موت نے دیکھا
ہوئی ہے نیند سے بیدار زندگی کہ میں ہوں

صائمہ اسما




نقش جب زخم بنا زخم بھی ناسور ہوا
جا کے تب کوئی مسیحائی پہ مجبور ہوا

صائمہ اسما




ہم کو پہلے بھی نہ ملنے کی شکایت کب تھی
اب جو ہے ترک مراسم کا بہانہ ہم سے

ساجد امجد




اور اک چوٹ دیجیے مجھ کو!
میری تکلیف نامکمل ہے

ساجد اثر




ایسی آگ فلک سے برسے گی اک دن
خاک ہوا پانی پتھر جل جائیں گے

ساجد حمید




درد اتنا بھی نہیں ہے کہ چھپا بھی نہ سکوں
بوجھ ایسا بھی نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں

ساجد حمید