EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

بے ہنر دیکھ نہ سکتے تھے مگر دیکھنے آئے
دیکھ سکتے تھے مگر اہل ہنر دیکھ نہ پائے

عین تابش




ایک بستی تھی ہوئی وقت کے اندوہ میں گم
چاہنے والے بہت اپنے پرانے تھے ادھر

عین تابش




ایک خوشبو تھی جو ملبوس پہ تابندہ تھی
ایک موسم تھا مرے سر پہ جو طوفانی تھا

عین تابش




ہے ایک ہی لمحہ جو کہیں وصل کہیں ہجر
تکلیف کسی کے لیے آرام کسی کا

عین تابش




ہر ایسے ویسے سے قفل قفس نہیں کھلتا
اس امتحاں کے لیے کچھ حقیر ہوتے ہیں

عین تابش




اک ذرا چین بھی لیتے نہیں تابش صاحب
ملک غم سے نئے فرمان نکل آتے ہیں

عین تابش




اسی قدر ہے حیات و اجل کے بیچ کا فرق
یہ ایک دھوپ کا دریا وہ اک کنارۂ شام

عین تابش