بزم خالی نہیں مہمان نکل آتے ہیں
کچھ تو افسانے مری جان نکل آتے ہیں
روز اک مرگ کا عالم بھی گزرتا ہے یہاں
روز جینے کے بھی سامان نکل آتے ہیں
سوچتا ہوں پر پرواز سمیٹوں لیکن
کتنے بھولے ہوئے پیمان نکل آتے ہیں
یاد کے سوئے ہوئے قافلے جاگ اٹھتے ہیں
خواب کے کچھ نئے عنوان نکل آتے ہیں
بیٹھنا چاہتی ہے تھک کے جو وحشت اپنی
کتنے ہی دشت و بیابان نکل آتے ہیں
استعارے ہیں جو آنکھوں سے چھلک پڑتے ہیں
کتنے ہی اشک کے دیوان نکل آتے ہیں
اک ذرا چین بھی لیتے نہیں تابش صاحب
ملک غم سے نئے فرمان نکل آتے ہیں
غزل
بزم خالی نہیں مہمان نکل آتے ہیں
عین تابش