EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کبھی سوچوں کہ خود میں لوٹ آؤں
کبھی سوچوں کہ ایسا کیوں کروں میں

عین عرفان




کرتا ہے کار روشنی مجھ کو جلا کے دن
کرتی ہے کار تیرگی مجھ کو بجھا کے رات

عین عرفان




میری طرف سبھی کہ نگاہیں تھیں اور میں
جس کش مکش میں سب تھے اسی کش مکش میں تھا

عین عرفان




مرا وجود جو پتھر دکھائی دیتا ہے
تمام عمر کی شیشہ گری کا حاصل ہے

عین عرفان




تشنگی پینے کی شب تھی
آب جو ہونے کا دن تھا

عین عرفان




یہ کون وقت کی صورت مجھے بدلتا ہے
یہ کیا کسی کے لیے کچھ ہوں کچھ کسی کے لیے

عین سلام




آج بھی اس کے مرے بیچ ہے دنیا حائل
آج بھی اس کے مرے بیچ کی مشکل ہے وہی

عین تابش