گھنی سیہ زلف بدلیوں سی بلا سبب مجھ میں جاگتی ہے
وہ خواہش نامراد اب تک تمام شب مجھ میں جاگتی ہے
وہ ایک بستی جو سو گئی ہے اداس بے نام ہو گئی ہے
بہ حرف و صوت اب بھی چیختی ہے بہ چشم و لب مجھ میں جاگتی ہے
ترے خیالوں کی مملکت کے تمام اصنام گر چکے ہیں
بس اک تمنائے کافرانہ بس اک طلب مجھ میں جاگتی ہے
میں اس گھڑی اپنے آپ کا سامنا بھی کرنے سے بھاگتا ہوں
وہ زینہ زینہ اترنے والی شبیہ جب مجھ میں جاگتی ہے
اس اک نگہ میں میں کب ہوں لرزاں اسے بھی اس کی خبر نہیں ہے
میں خود بھی اس بات کو نہیں جانتا وہ کب مجھ میں جاگتی ہے
غزل
گھنی سیہ زلف بدلیوں سی بلا سبب مجھ میں جاگتی ہے
عین تابش