EN हिंदी
گھنی سیہ زلف بدلیوں سی بلا سبب مجھ میں جاگتی ہے | شیح شیری
ghani siyah zulf badliyon si bila sabab mujh mein jagti hai

غزل

گھنی سیہ زلف بدلیوں سی بلا سبب مجھ میں جاگتی ہے

عین تابش

;

گھنی سیہ زلف بدلیوں سی بلا سبب مجھ میں جاگتی ہے
وہ خواہش نامراد اب تک تمام شب مجھ میں جاگتی ہے

وہ ایک بستی جو سو گئی ہے اداس بے نام ہو گئی ہے
بہ حرف و صوت اب بھی چیختی ہے بہ چشم و لب مجھ میں جاگتی ہے

ترے خیالوں کی مملکت کے تمام اصنام گر چکے ہیں
بس اک تمنائے کافرانہ بس اک طلب مجھ میں جاگتی ہے

میں اس گھڑی اپنے آپ کا سامنا بھی کرنے سے بھاگتا ہوں
وہ زینہ زینہ اترنے والی شبیہ جب مجھ میں جاگتی ہے

اس اک نگہ میں میں کب ہوں لرزاں اسے بھی اس کی خبر نہیں ہے
میں خود بھی اس بات کو نہیں جانتا وہ کب مجھ میں جاگتی ہے