وہی جنوں کی سوختہ جانی وہی فسوں افسانوں کا
اڑا اڑا سا بجھا بجھا سا رنگ وہی دیوانوں کا
دریا تو مانوس ہے اشک لہو کی خود سر موجوں سے
دشت تجھے معلوم ہے سارا قصہ ان حیرانوں کا
چاہت بھر امید رکھی ہے اور رستوں بھر پا مردی
درویشوں کے چال چلن میں رنگ ہے سب سلطانوں کا
ابھی نہیں تو آئندہ ہم خاک اڑانے آئیں گے
کون سا کام رکا جاتا ہے فقیروں بے سامانوں کا
تو جو اس دنیا کی خاطر اپنا آپ گنواتا ہے
اے دل من اے میرے مسافر کام ہے یہ نادانوں کا
غزل
وہی جنوں کی سوختہ جانی وہی فسوں افسانوں کا
عین تابش