حیات سوختہ ساماں اک استعارۂ شام
چمک چمک کے بجھا ہے کوئی ستارۂ شام
کسی کو فائدۂ شام خوش خصال ملا
کسی کے حصے میں لکھا گیا خسارۂ شام
بجھا رہے ہیں چراغ شگفتگئ بہار
سمجھ چکے ہیں بہت ہم بھی یہ اشارۂ شام
اسی قدر ہے حیات و اجل کے بیچ کا فرق
یہ ایک دھوپ کا دریا وہ اک کنارۂ شام
جنوں کی بزم سجی ہے اسی کے سائے میں
کہ ہم تو گرنے نہیں دیں گے یہ منارۂ شام
غزل
حیات سوختہ ساماں اک استعارۂ شام
عین تابش