EN हिंदी
خاکساری تھی کہ بن دیکھے ہی ہم خاک ہوئے | شیح شیری
KHaksari thi ki bin dekhe hi hum KHak hue

غزل

خاکساری تھی کہ بن دیکھے ہی ہم خاک ہوئے

عین تابش

;

خاکساری تھی کہ بن دیکھے ہی ہم خاک ہوئے
اور کبھی معرکۂ فتح و ظفر دیکھ نہ پائے

اس نے دیکھا ہے تو پھر دیکھنا کیا ہو جائے
دیکھتے رہنا ہے ظالم کو ادھر دیکھ نہ پائے

بے ہنر دیکھ نہ سکتے تھے مگر دیکھنے آئے
دیکھ سکتے تھے مگر اہل ہنر دیکھ نہ پائے

ہو گئے خواہش نظارہ سے بے خود اتنے
دیکھنا چاہتے تھے اس کو مگر دیکھ نہ پائے

کب اسے لوٹ کے دیکھیں گے یہ دیکھا جائے
ہم نے دنیا تو بہت دیکھ لی گھر دیکھ نہ پائے

لوگ جب دیکھنے پر آئے تو اتنا دیکھا
آنکھ پتھرا گئی اور حد نظر دیکھ نہ پائے

وہ بھی کیا دیکھنا تھا دیکھنے والے بولے
جلوہ ہر چند رہا پیش نظر دیکھ نہ پائے

دیپ جلتے رہے طاقوں میں اجالا نہ ہوا
آنکھ پابند تحیر تھی ادھر دیکھ نہ پائے

یہ تیقن نہیں ہوتا تھا کدھر دیکھ سکے
یہ تعین نہیں ہوتا تھا کدھر دیکھ نہ پائے

وہ تغافل تھا کہ اس نے ہمیں دیکھا ہی نہیں
وہ تساہل تھا کہ ہم اس کی نظر دیکھ نہ پائے

اس قدر تیز چلی اب کے ہوائے نابود
چاہ کر شہر تمنا کا کھنڈر دیکھ نہ پائے

یوں ہوا دل زدگاں لوٹ گئے آخر شب
رات تو جاگ کے کاٹی تھی سحر دیکھ نہ پائے

کس نے دیکھی ہے اجالوں سے سلگتی ہوئی رات
اور جو دیکھ سکے خواب سحر دیکھ نہ پائے