EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ہماری سانسیں ملی ہیں گن کے
نہ جانے کتنے بجے ہیں دن کے

احسن یوسف زئی




کاغذ کی ناؤ ہوں جسے تنکا ڈبو سکے
یوں بھی نہیں کہ آپ سے یہ بھی نہ ہو سکے

احسن یوسف زئی




لٹیروں کے لیے سوتی ہیں آنکھیں
مگر ہم اپنے اندر جاگتے ہیں

احسن یوسف زئی




نیند کو لوگ موت کہتے ہیں
خواب کا نام زندگی بھی ہے

احسن یوسف زئی




روز و شب بیچ دیے ہیں میں نے
اس بلندی سے گراتا کیا ہے

احسن یوسف زئی




سب کے آنگن جھانکنے والے ہم سے ہی کیوں بیر تجھے
کب تک تیرا رستہ دیکھیں ساری رات کے جاگے ہم

احسن یوسف زئی




بہت نزدیک تھے تصویر میں ہم
مگر وہ فاصلہ جو دکھ رہا تھا

عین عرفان