آوارہ بھٹکتا رہا پیغام کسی کا
مکتوب کسی اور کا تھا نام کسی کا
ہے ایک ہی لمحہ جو کہیں وصل کہیں ہجر
تکلیف کسی کے لیے آرام کسی کا
کچھ لوگوں کو رخصت بھی کیا کرتی ہے ظالم
رستہ بھی تکا کرتی ہے یہ شام کسی کا
اک قہر ہوا کرتی ہے یہ محفل مے ہے بھی
جب ہونٹ کسی اور کا ہو جام کسی کا
مدت ہوئی ڈوبے ہوئے خوابوں کا سفینہ
موجوں پہ چمکتا ہے مگر نام کسی کا
غزل
آوارہ بھٹکتا رہا پیغام کسی کا
عین تابش