EN हिंदी
کیسے افسوں تھے وہاں کیسے فسانے تھے ادھر | شیح شیری
kaise afsun the wahan kaise fasane the udhar

غزل

کیسے افسوں تھے وہاں کیسے فسانے تھے ادھر

عین تابش

;

کیسے افسوں تھے وہاں کیسے فسانے تھے ادھر
زندگی تجھ سے تعلق کے بہانے تھے ادھر

کیا عجب خواب کے خوشبو کے ٹھکانے تھے ادھر
اب تو کچھ یاد نہیں کون زمانے تھے ادھر

یہ نہیں یاد کہ وہ باغ تھا کس کوچے میں
اس قدر یاد ہے کچھ پھول کھلانے تھے ادھر

ایک بستی تھی ہوئی وقت کے اندوہ میں گم
چاہنے والے بہت اپنے پرانے تھے ادھر

ہم ادھر آئے تو وہ عرض کرم چھوٹے گی
مملکت عشق کی تھی غم کے خزانے تھے ادھر