پیاس بڑھتی ہوئی تا حد نظر پانی تھا
رو بہ رو کیسا عجب منظر حیرانی تھا
راستہ بند تھا اور شوق سفر تھا باقی
ایک افسانہ جنوں کا تھا جو طولانی تھا
ایک خوشبو تھی جو ملبوس پہ تابندہ تھی
ایک موسم تھا مرے سر پہ جو طوفانی تھا
دم بخود ایک تماشائے فنا تھا ہر سو
شور کرتا ہوا اک شوق جہاں بانی تھا
خود پسندی کا عجب وہم تھا سب پر طاری
جیسے کوئی بھی کسی کا نہ یہاں ثانی تھا
غزل
پیاس بڑھتی ہوئی تا حد نظر پانی تھا
عین تابش