لہر سے لہر کا ناتا کیا ہے
مجھ پہ الزام پھر آتا کیا ہے
بولتی آنکھ میں بلور کی روح
سنگ آواز اٹھاتا کیا ہے
روز و شب بیچ دیے ہیں میں نے
اس بلندی سے گراتا کیا ہے
لاکھوں برسوں کے سفر سے حاصل
دیکھنا کیا ہے دکھاتا کیا ہے
تیر اندھے ہیں شکاری اندھا
کھیل ہے کھیل میں جاتا کیا ہے
غزل
لہر سے لہر کا ناتا کیا ہے
احسن یوسف زئی