EN हिंदी
لہر سے لہر کا ناتا کیا ہے | شیح شیری
lahar se lahar ka nata kya hai

غزل

لہر سے لہر کا ناتا کیا ہے

احسن یوسف زئی

;

لہر سے لہر کا ناتا کیا ہے
مجھ پہ الزام پھر آتا کیا ہے

بولتی آنکھ میں بلور کی روح
سنگ آواز اٹھاتا کیا ہے

روز و شب بیچ دیے ہیں میں نے
اس بلندی سے گراتا کیا ہے

لاکھوں برسوں کے سفر سے حاصل
دیکھنا کیا ہے دکھاتا کیا ہے

تیر اندھے ہیں شکاری اندھا
کھیل ہے کھیل میں جاتا کیا ہے