جہاں شیشہ ہے پتھر جاگتے ہیں
ضرر ایجاد گھر گھر جاگتے ہیں
صدف آسودگی کی نیند سوئے
مگر پیاسے سمندر جاگتے ہیں
اڑی افواہ اندھی بستیوں میں
ستاروں سے مقدر جاگتے ہیں
لٹیروں کے لیے سوتی ہیں آنکھیں
مگر ہم اپنے اندر جاگتے ہیں
اندھیروں میں کھنڈر سوتا پڑا ہے
ابابیلوں کے لشکر جاگتے ہیں
غزل
جہاں شیشہ ہے پتھر جاگتے ہیں
احسن یوسف زئی