EN हिंदी
جہاں شیشہ ہے پتھر جاگتے ہیں | شیح شیری
jahan shisha hai patthar jagte hain

غزل

جہاں شیشہ ہے پتھر جاگتے ہیں

احسن یوسف زئی

;

جہاں شیشہ ہے پتھر جاگتے ہیں
ضرر ایجاد گھر گھر جاگتے ہیں

صدف آسودگی کی نیند سوئے
مگر پیاسے سمندر جاگتے ہیں

اڑی افواہ اندھی بستیوں میں
ستاروں سے مقدر جاگتے ہیں

لٹیروں کے لیے سوتی ہیں آنکھیں
مگر ہم اپنے اندر جاگتے ہیں

اندھیروں میں کھنڈر سوتا پڑا ہے
ابابیلوں کے لشکر جاگتے ہیں