یہ کس کرنی کا پھل ہوگا کیسی رت میں جاگے ہم
تیز نکیلی تلواروں کے بیچ میں کچے دھاگے ہم
ٹہنی ٹہنی جھول رہی ہیں لاشیں زندہ پتوں کی
کیا اس نظارے کی خاطر جنگل جنگل بھاگے ہم
جلتی دھوپیں پیاسا پنچھی نہر کنارے اترے گا
جب بھی کوئی زخم دکھا ہے انگ پیا کے لاگے ہم
اپنی ہی پہچان نہیں تو سائے کی پہچان کہاں
چپہ چپہ دیواریں ہیں کیا دیکھیں گے آگے ہم
سب کے آنگن جھانکنے والے ہم سے ہی کیوں بیر تجھے
کب تک تیرا رستہ دیکھیں ساری رات کے جاگے ہم
غزل
یہ کس کرنی کا پھل ہوگا کیسی رت میں جاگے ہم
احسن یوسف زئی