EN हिंदी
یہ کس کرنی کا پھل ہوگا کیسی رت میں جاگے ہم | شیح شیری
ye kis karni ka phal hoga kaisi rut mein jage hum

غزل

یہ کس کرنی کا پھل ہوگا کیسی رت میں جاگے ہم

احسن یوسف زئی

;

یہ کس کرنی کا پھل ہوگا کیسی رت میں جاگے ہم
تیز نکیلی تلواروں کے بیچ میں کچے دھاگے ہم

ٹہنی ٹہنی جھول رہی ہیں لاشیں زندہ پتوں کی
کیا اس نظارے کی خاطر جنگل جنگل بھاگے ہم

جلتی دھوپیں پیاسا پنچھی نہر کنارے اترے گا
جب بھی کوئی زخم دکھا ہے انگ پیا کے لاگے ہم

اپنی ہی پہچان نہیں تو سائے کی پہچان کہاں
چپہ چپہ دیواریں ہیں کیا دیکھیں گے آگے ہم

سب کے آنگن جھانکنے والے ہم سے ہی کیوں بیر تجھے
کب تک تیرا رستہ دیکھیں ساری رات کے جاگے ہم