EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

مفلس کے بدن کو بھی ہے چادر کی ضرورت
اب کھل کے مزاروں پہ یہ اعلان کیا جائے

قتیل شفائی




مجھ سے تو پوچھنے آیا ہے وفا کے معنی
یہ تری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو

قتیل شفائی




نہ چھاؤں کرنے کو ہے وہ آنچل نہ چین لینے کو ہیں وہ بانہیں
مسافروں کے قریب آ کر ہر اک بسیرا پلٹ گیا ہے

قتیل شفائی




نہ جانے کون سی منزل پہ آ پہنچا ہے پیار اپنا
نہ ہم کو اعتبار اپنا نہ ان کو اعتبار اپنا

قتیل شفائی




نکل کر دیر و کعبہ سے اگر ملتا نہ بت خانہ
تو ٹھکرائے ہوئے انساں خدا جانے کہاں جاتے

قتیل شفائی




قتیلؔ اب دل کی دھڑکن بن گئی ہے چاپ قدموں کی
کوئی میری طرف آتا ہوا محسوس ہوتا ہے

قتیل شفائی




رابطہ لاکھ سہی قافلہ سالار کے ساتھ
ہم کو چلنا ہے مگر وقت کی رفتار کے ساتھ

قتیل شفائی