مفلس کے بدن کو بھی ہے چادر کی ضرورت
اب کھل کے مزاروں پہ یہ اعلان کیا جائے
قتیل شفائی
مجھ سے تو پوچھنے آیا ہے وفا کے معنی
یہ تری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو
قتیل شفائی
نہ چھاؤں کرنے کو ہے وہ آنچل نہ چین لینے کو ہیں وہ بانہیں
مسافروں کے قریب آ کر ہر اک بسیرا پلٹ گیا ہے
قتیل شفائی
نہ جانے کون سی منزل پہ آ پہنچا ہے پیار اپنا
نہ ہم کو اعتبار اپنا نہ ان کو اعتبار اپنا
قتیل شفائی
نکل کر دیر و کعبہ سے اگر ملتا نہ بت خانہ
تو ٹھکرائے ہوئے انساں خدا جانے کہاں جاتے
قتیل شفائی
قتیلؔ اب دل کی دھڑکن بن گئی ہے چاپ قدموں کی
کوئی میری طرف آتا ہوا محسوس ہوتا ہے
قتیل شفائی
رابطہ لاکھ سہی قافلہ سالار کے ساتھ
ہم کو چلنا ہے مگر وقت کی رفتار کے ساتھ
قتیل شفائی