رہے گا ساتھ ترا پیار زندگی بن کر
یہ اور بات مری زندگی وفا نہ کرے
قتیل شفائی
رقص کرنے کا ملا حکم جو دریاؤں میں
ہم نے خوش ہو کے بھنور باندھ پاؤں میں
قتیل شفائی
ستی تو میں ہو جاؤں گی پر یہ مجھے بتا
پہلے اگر میں مر گئی جلے گا تو بھی کیا
قتیل شفائی
ستم تو یہ ہے کہ وہ بھی نہ بن سکا اپنا
قبول ہم نے کیے جس کے غم خوشی کی طرح
قتیل شفائی
سوچ کو جرأت پرواز تو مل لینے دو
یہ زمیں اور ہمیں تنگ دکھائی دے گی
قتیل شفائی
ثبوت عشق کی یہ بھی تو ایک صورت ہے
کہ جس سے پیار کریں اس پہ تہمتیں بھی دھریں
قتیل شفائی
سوکھ گئی جب آنکھوں میں پیار کی نیلی جھیل قتیلؔ
تیرے درد کا زرد سمندر کاہے شور مچائے گا
قتیل شفائی