EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ترک وفا کے بعد یہ اس کی ادا قتیلؔ
مجھ کو ستائے کوئی تو اس کو برا لگے

قتیل شفائی




تھک گیا میں کرتے کرتے یاد تجھ کو
اب تجھے میں یاد آنا چاہتا ہوں

قتیل شفائی




تھوڑی سی اور زخم کو گہرائی مل گئی
تھوڑا سا اور درد کا احساس گھٹ گیا

قتیل شفائی




تم آ سکو تو شب کو بڑھا دو کچھ اور بھی
اپنے کہے میں صبح کا تارا ہے ان دنوں

قتیل شفائی




تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ایسے تو حالات نہیں
ایک ذرا سا دل ٹوٹا ہے اور تو کوئی بات نہیں

قتیل شفائی




اف وہ مرمر سے تراشا ہوا شفاف بدن
دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں

قتیل شفائی




وہ دل ہی کیا ترے ملنے کی جو دعا نہ کرے
میں تجھ کو بھول کے زندہ رہوں خدا نہ کرے

قتیل شفائی