آؤ کوئی تفریح کا سامان کیا جائے
پھر سے کسی واعظ کو پریشان کیا جائے
بے لغزش پا مست ہوں ان آنکھوں سے پی کر
یوں محتسب شہر کو حیران کیا جائے
ہر شے سے مقدس ہے خیالات کا رشتہ
کیوں مصلحتوں پر اسے قربان کیا جائے
مفلس کے بدن کو بھی ہے چادر کی ضرورت
اب کھل کے مزاروں پہ یہ اعلان کیا جائے
وہ شخص جو دیوانوں کی عزت نہیں کرتا
اس شخص کا بھی چاک گریبان کیا جائے
پہلے بھی قتیلؔ آنکھوں نے کھائے کئی دھوکے
اب اور نہ بینائی کا نقصان کیا جائے
غزل
آؤ کوئی تفریح کا سامان کیا جائے
قتیل شفائی