EN हिंदी
وصال کی سرحدوں تک آ کر جمال تیرا پلٹ گیا ہے | شیح شیری
visal ki sarhadon tak aa kar jamal tera palaT gaya hai

غزل

وصال کی سرحدوں تک آ کر جمال تیرا پلٹ گیا ہے

قتیل شفائی

;

وصال کی سرحدوں تک آ کر جمال تیرا پلٹ گیا ہے
وہ رنگ تو نے مری نگاہوں پہ جو بکھیرا پلٹ گیا ہے

کہاں کی زلفیں کہاں کے بادل سوائے تیرہ نصیبوں کے
مری نظر نے جسے پکارا وہی اندھیرا پلٹ گیا ہے

نہ چھاؤں کرنے کو ہے وہ آنچل نہ چین لینے کو ہیں وہ بانہیں
مسافروں کے قریب آ کر ہر اک بسیرا پلٹ گیا ہے

مرے تصور کے راستوں میں ابھر کے ڈوبی ہزار آہٹ
نہ جانے شام الم سے مل کر کہاں سویرا پلٹ گیا ہے

ملا محبت کا روگ جس کو قتیلؔ کہتے ہیں لوگ جس کو
وہی تو دیوانہ کر کے تیری گلی کا پھیرا پلٹ گیا ہے