وصال کی سرحدوں تک آ کر جمال تیرا پلٹ گیا ہے
وہ رنگ تو نے مری نگاہوں پہ جو بکھیرا پلٹ گیا ہے
کہاں کی زلفیں کہاں کے بادل سوائے تیرہ نصیبوں کے
مری نظر نے جسے پکارا وہی اندھیرا پلٹ گیا ہے
نہ چھاؤں کرنے کو ہے وہ آنچل نہ چین لینے کو ہیں وہ بانہیں
مسافروں کے قریب آ کر ہر اک بسیرا پلٹ گیا ہے
مرے تصور کے راستوں میں ابھر کے ڈوبی ہزار آہٹ
نہ جانے شام الم سے مل کر کہاں سویرا پلٹ گیا ہے
ملا محبت کا روگ جس کو قتیلؔ کہتے ہیں لوگ جس کو
وہی تو دیوانہ کر کے تیری گلی کا پھیرا پلٹ گیا ہے
غزل
وصال کی سرحدوں تک آ کر جمال تیرا پلٹ گیا ہے
قتیل شفائی