میں نے پوچھا پہلا پتھر مجھ پر کون اٹھائے گا
آئی اک آواز کہ تو جس کا محسن کہلائے گا
پوچھ سکے تو پوچھے کوئی روٹھ کے جانے والوں سے
روشنیوں کو میرے گھر کا رستہ کون بتائے گا
ڈالی ہے اس خوش فہمی نے عادت مجھ کو سونے کی
نکلے گا جب سورج تو خود مجھ کو آن جگائے گا
لوگو میرے ساتھ چلو تم جو کچھ ہے وہ آگے ہے
پیچھے مڑ کر دیکھنے والا پتھر کا ہو جائے گا
دن میں ہنس کر ملنے والے چہرے صاف بتاتے ہیں
ایک بھیانک سپنا مجھ کو ساری رات ڈرائے گا
میرے بعد وفا کا دھوکا اور کسی سے مت کرنا
گالی دے گی دنیا تجھ کو سر میرا جھک جائے گا
سوکھ گئی جب آنکھوں میں پیار کی نیلی جھیل قتیلؔ
تیرے درد کا زرد سمندر کاہے شور مچائے گا
غزل
میں نے پوچھا پہلا پتھر مجھ پر کون اٹھائے گا
قتیل شفائی