EN हिंदी
صدمہ تو ہے مجھے بھی کہ تجھ سے جدا ہوں میں | شیح شیری
sadma to hai mujhe bhi ki tujhse juda hun main

غزل

صدمہ تو ہے مجھے بھی کہ تجھ سے جدا ہوں میں

قتیل شفائی

;

صدمہ تو ہے مجھے بھی کہ تجھ سے جدا ہوں میں
لیکن یہ سوچتا ہوں کہ اب تیرا کیا ہوں میں

بکھرا پڑا ہے تیرے ہی گھر میں ترا وجود
بے کار محفلوں میں تجھے ڈھونڈتا ہوں میں

میں خودکشی کے جرم کا کرتا ہوں اعتراف
اپنے بدن کی قبر میں کب سے گڑا ہوں میں

کس کس کا نام لاؤں زباں پر کہ تیرے ساتھ
ہر روز ایک شخص نیا دیکھتا ہوں میں

کیا جانے کس ادا سے لیا تو نے میرا نام
دنیا سمجھ رہی ہے کہ سچ مچ ترا ہوں میں

پہنچا جو تیرے در پہ تو محسوس یہ ہوا
لمبی سی ایک قطار میں جیسے کھڑا ہوں میں

لے میرے تجربوں سے سبق اے مرے رقیب
دو چار سال عمر میں تجھ سے بڑا ہوں میں

جاگا ہوا ضمیر وہ آئینہ ہے قتیلؔ
سونے سے پہلے روز جسے دیکھتا ہوں میں