EN हिंदी
یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے | شیح شیری
ye moajiza bhi mohabbat kabhi dikhae mujhe

غزل

یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے

قتیل شفائی

;

یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے

میں اپنے پاؤں تلے روندتا ہوں سائے کو
بدن مرا ہی سہی دوپہر نہ بھائے مجھے

بہ رنگ عود ملے گی اسے مری خوشبو
وہ جب بھی چاہے بڑے شوق سے جلائے مجھے

میں گھر سے تیری تمنا پہن کے جب نکلوں
برہنہ شہر میں کوئی نظر نہ آئے مجھے

وہی تو سب سے زیادہ ہے نکتہ چیں میرا
جو مسکرا کے ہمیشہ گلے لگائے مجھے

میں اپنے دل سے نکالوں خیال کس کس کا
جو تو نہیں تو کوئی اور یاد آئے مجھے

زمانہ درد کے صحرا تک آج لے آیا
گزار کر تری زلفوں کے سائے سائے مجھے

وہ میرا دوست ہے سارے جہاں کو ہے معلوم
دغا کرے وہ کسی سے تو شرم آئے مجھے

وہ مہرباں ہے تو اقرار کیوں نہیں کرتا
وہ بد گماں ہے تو سو بار آزمائے مجھے

میں اپنی ذات میں نیلام ہو رہا ہوں قتیلؔ
غم حیات سے کہہ دو خرید لائے مجھے