مرحلہ رات کا جب آئے گا
جسم سائے کو ترس جائے گا
چل پڑی رسم جو کج فہمی کی
بات کیا پھر کوئی کر پائے گا
سچ سے کترائے اگر لوگ یہاں
لفظ مفہوم سے کترائے گا
اعتبار اس کا ہمیشہ کرنا
وہ تو جھوٹی بھی قسم کھائے گا
تو نہ ہوگی تو پھر اے شام فراق
کون آ کر ہمیں بہلائے گا
ہم اسے یاد بہت آئیں گے
جب اسے بھی کوئی ٹھکرائے گا
کائنات اس کی مری ذات میں ہے
مجھ کو کھو کر وہ کسے پائے گا
نہ رہے جب وہ بھلے دن بھی قتیلؔ
یہ زمانہ بھی گزر جائے گا
غزل
مرحلہ رات کا جب آئے گا
قتیل شفائی