EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی

نصیر ترابی




یہ ہوا سارے چراغوں کو اڑا لے جائے گی
رات ڈھلنے تک یہاں سب کچھ دھواں ہو جائے گا

نصیر ترابی




یہ راہ تمنا ہے یہاں دیکھ کے چلنا
اس راہ میں سر ملتے ہیں پتھر نہیں ملتا

نصیر ترابی




جانے کب کون سے لمحے میں ضرورت پڑ جائے
تم ہمارے لئے پہلے سے دعا کر رکھنا

ناشر نقوی




سفر کا خاتمہ ہوتا نہیں کہیں اپنا
ہر اک پڑاؤ سے اک ابتدا نکلتی ہے

ناشر نقوی




اس کے کرم کا ایک سہارا جو مل گیا
پھر عمر بھر کسی کی ضرورت نہیں ہوئی

ناشر نقوی




وفا کی راہ میں دل کا سپاس رکھ دوں گا
میں ہر ندی کے کنارے پہ پیاس رکھ دوں گا

ناشر نقوی