شب کی پہنائیوں میں چیخ اٹھے
درد تنہائیوں میں چیخ اٹھے
تہ بہ تہ منجمد تھکن جاگی
جسم انگڑائیوں میں چیخ اٹھے
دھوپ جب آئینہ بدست آئی
عکس بینائیوں میں چیخ اٹھے
میں سمندر ہوں کوئی تو سیپی
میری گہرائیوں میں چیخ اٹھے
رت جگے تن گئے دریچوں پر
خواب انگنائیوں میں چیخ اٹھے
جب پہاڑوں پہ برف گرنے لگے
کوئی اترائیوں میں چیخ اٹھے
جب پکارا کسی مسافر نے
راستے کھائیوں میں چیخ اٹھے
کچھ خموشی سے دیکھتے تھے مجھے
کچھ تماشائیوں میں چیخ اٹھے
رات بھر خواب دیکھنے والے
دن کی سچائیوں میں چیخ اٹھے
دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش
گیت شہنائیوں میں چیخ اٹھے
غزل
شب کی پہنائیوں میں چیخ اٹھے
نصیر احمد ناصر