درد کے پیلے گلابوں کی تھکن باقی رہی
جاگتی آنکھوں میں خوابوں کی تھکن باقی رہی
پانیوں کا جسم سہلاتی رہی پروا مگر
ٹوٹتے بنتے حبابوں کی تھکن باقی رہی
دید کی آسودگی میں کون کیسے دیکھتا
درمیاں کتنے حجابوں کی تھکن باقی رہی
فلسفے سارے کتابوں میں الجھ کر رہ گئے
درس گاہوں میں نصابوں کی تھکن باقی رہی
بارشیں ہوتی رہیں ناصرؔ سمندر کی طرف
ریگزاروں میں سرابوں کی تھکن باقی رہی
غزل
درد کے پیلے گلابوں کی تھکن باقی رہی
نصیر احمد ناصر