EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

آج کی رات اجالے مرے ہمسایہ ہیں
آج کی رات جو سو لوں تو نیا ہو جاؤں

نصیر ترابی




عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی

نصیر ترابی




اس کڑی دھوپ میں سایہ کر کے
تو کہاں ہے مجھے تنہا کر کے

نصیر ترابی




میں اک شجر کی طرح رہ گزر میں ٹھہرا ہوں
تھکن اتار کے تو کس طرف روانہ ہوا

نصیر ترابی




ملنے کی طرح مجھ سے وہ پل بھر نہیں ملتا
دل اس سے ملا جس سے مقدر نہیں ملتا

نصیر ترابی




شہر میں کس سے سخن رکھیے کدھر کو چلیے
اتنی تنہائی تو گھر میں بھی ہے گھر کو چلیے

نصیر ترابی




تجھے کیا خبر مرے بے خبر مرا سلسلہ کوئی اور ہے
جو مجھی کو مجھ سے بہم کرے وہ گریز پا کوئی اور ہے

نصیر ترابی