EN हिंदी
طاق ماضی میں جو رکھے تھے سجا کر چہرے | شیح شیری
taq-e-mazi mein jo rakkhe the saja kar chehre

غزل

طاق ماضی میں جو رکھے تھے سجا کر چہرے

نصیر احمد ناصر

;

طاق ماضی میں جو رکھے تھے سجا کر چہرے
لے گئی تیز ہوا غم کی اڑا کر چہرے

جن کے ہونٹوں پہ طرب خیز ہنسی ہوتی ہے
وہ بھی روتے ہیں کتابوں میں چھپا کر چہرے

کرب کی زرد تکونوں میں کئی ترچھے خطوط
کس قدر خوش تھا میں کاغذ پہ بنا کر چہرے

مو قلم لے کے مرے شہر کی دیواروں پر
کس نے لکھا ہے ترا نام مٹا کر چہرے

لوگ پھرتے ہیں بھرے شہر کی تنہائی میں
سرد جسموں کی صلیبوں پہ اٹھا کر چہرے