طاق ماضی میں جو رکھے تھے سجا کر چہرے
لے گئی تیز ہوا غم کی اڑا کر چہرے
جن کے ہونٹوں پہ طرب خیز ہنسی ہوتی ہے
وہ بھی روتے ہیں کتابوں میں چھپا کر چہرے
کرب کی زرد تکونوں میں کئی ترچھے خطوط
کس قدر خوش تھا میں کاغذ پہ بنا کر چہرے
مو قلم لے کے مرے شہر کی دیواروں پر
کس نے لکھا ہے ترا نام مٹا کر چہرے
لوگ پھرتے ہیں بھرے شہر کی تنہائی میں
سرد جسموں کی صلیبوں پہ اٹھا کر چہرے
غزل
طاق ماضی میں جو رکھے تھے سجا کر چہرے
نصیر احمد ناصر