EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اترا تھا جس پہ باب حیا کا ورق ورق
بستر کے ایک ایک شکن کی شریک تھی

مصطفی زیدی




بہکنا میری فطرت میں نہیں پر
سنبھلنے میں پریشانی بہت ہے

مظفر ابدالی




کشتیاں لکھتی رہیں روز کہانی اپنی
موج کہتی ہی رہی زیر و زبر میں ہی ہوں

مظفر ابدالی




خدا بھی کیسا ہوا خوش مرے قرینے پر
مجھے شہید کا درجہ ملا ہے جینے پر

مظفر ابدالی




رہگزر کا ہے تقاضا کہ ابھی اور چلو
ایک امید جو منزل کے نشاں تک پہنچی

مظفر ابدالی




ریت پر اک نشان ہے شاید
یہ ہمارا مکان ہے شاید

مظفر ابدالی




باقی ابھی ہے ترک تمنا کی آرزو
کیوں کر کہوں کہ کوئی تمنا نہیں مجھے

مظفر علی اسیر