EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

جس دن سے اپنا طرز فقیرانہ چھٹ گیا
شاہی تو مل گئی دل شاہانہ چھٹ گیا

مصطفی زیدی




خود اپنے شب و روز گزر جائیں گے لیکن
شامل ہے مرے غم میں تری در بدری بھی

مصطفی زیدی




میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

مصطفی زیدی




مری روح کی حقیقت مرے آنسوؤں سے پوچھو
مرا مجلسی تبسم مرا ترجماں نہیں ہے

مصطفی زیدی




ناوک ظلم اٹھا دشنۂ اندوہ سنبھال
لطف کے خنجر بے نام سے مت مار مجھے

مصطفی زیدی




روح کے اس ویرانے میں تیری یاد ہی سب کچھ تھی
آج تو وہ بھی یوں گزری جیسے غریبوں کا تیوہار

مصطفی زیدی




تتلیاں اڑتی ہیں اور ان کو پکڑنے والے
سعیٔ ناکام میں اپنوں سے بچھڑ جاتے ہیں

مصطفی زیدی