فن کار خود نہ تھی مرے فن کی شریک تھی
وہ روح کے سفر میں بدن کی شریک تھی
اترا تھا جس پہ باب حیا کا ورق ورق
بستر کے ایک ایک شکن کی شریک تھی
میں ایک اعتبار سے آتش پرست تھا
وہ سارے زاویوں سے چمن کی شریک تھی
وہ نازش ستارہ و طنار ماہتاب
گردش کے وقت میرے گہن کی شریک تھی
وہ ہم جلیس سانحۂ رحمت نشاط
آسائش صلیب و رسن کی شریک تھی
نا قابل بیان اندھیروں کے باوجود
میری دعائے صبح وطن کی شریک تھی
غزل
فن کار خود نہ تھی مرے فن کی شریک تھی
مصطفی زیدی