EN हिंदी
ریت پر اک نشان ہے شاید | شیح شیری
rit par ek nishan hai shayad

غزل

ریت پر اک نشان ہے شاید

مظفر ابدالی

;

ریت پر اک نشان ہے شاید
یہ ہمارا مکان ہے شاید

شور کے بیچ سو رہی ہے زمیں
مدتوں کی تھکان ہے شاید

درد کا اشتہار چسپاں ہے
زندگی کی دکان ہے شاید

تنہا تنہا نکل پڑے پنچھی
عہد نو کی اڑان ہے شاید

عقل کہتی ہے مر چکا رشتہ
شوق کہتا ہے جان ہے شاید

وہ جہاں پر پگھل رہی ہے دھوپ
ہاں وہیں سائبان ہے شاید

آج وہ مسکرا کے ملتے ہیں
آج پھر امتحان ہے شاید