خدا بھی کیسا ہوا خوش مرے قرینے پر
مجھے شہید کا درجہ ملا ہے جینے پر
کھنڈر کے گنبد و محراب جاگ اٹھیں گے
اسے کہو کہ وہ دھیرے سے آئے زینے پر
لکیر ہے نہ کوئی رنگ ہے نہ کلمہ ہے
یہ کیسا نقش بنایا ہے میرے سینے پر
ابھی امید نئی وسعتوں کی قائم ہے
ابھی وہ لوٹ کے آیا نہیں سفینے پر
چھتیں بھی بٹ چکیں آنگن بھی بٹ چکے لیکن
چھڑی ہے جنگ کہ حق کس کا ہے دفینے پر
غزل
خدا بھی کیسا ہوا خوش مرے قرینے پر
مظفر ابدالی