EN हिंदी
خدا بھی کیسا ہوا خوش مرے قرینے پر | شیح شیری
KHuda bhi kaisa hua KHush mere qarine par

غزل

خدا بھی کیسا ہوا خوش مرے قرینے پر

مظفر ابدالی

;

خدا بھی کیسا ہوا خوش مرے قرینے پر
مجھے شہید کا درجہ ملا ہے جینے پر

کھنڈر کے گنبد و محراب جاگ اٹھیں گے
اسے کہو کہ وہ دھیرے سے آئے زینے پر

لکیر ہے نہ کوئی رنگ ہے نہ کلمہ ہے
یہ کیسا نقش بنایا ہے میرے سینے پر

ابھی امید نئی وسعتوں کی قائم ہے
ابھی وہ لوٹ کے آیا نہیں سفینے پر

چھتیں بھی بٹ چکیں آنگن بھی بٹ چکے لیکن
چھڑی ہے جنگ کہ حق کس کا ہے دفینے پر