بیاباں کو پشیمانی بہت ہے
کہ شہروں میں بیابانی بہت ہے
مرے ہنسنے پہ دنیا چونک اٹھی
مجھے بھی خود پہ حیرانی بہت ہے
چلو صحرا کو بھی اب آزمائیں
سنا تھا گھر میں آسانی بہت ہے
خدا محفوظ رکھے فصل دل کو
کہیں سوکھا کہیں پانی بہت ہے
کہیں بادل کہیں پیڑوں کے سائے
اجالوں پر نگہبانی بہت ہے
بہکنا میری فطرت میں نہیں پر
سنبھلنے میں پریشانی بہت ہے
غزل
بیاباں کو پشیمانی بہت ہے
مظفر ابدالی