EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

سنائیے وہ لطیفہ ہر ایک جام کے ساتھ
کہ ایک بوند سے ایمان ٹوٹ جاتا ہے

مظفر حنفی




سنتا ہوں کہ تجھ کو بھی زمانے سے گلہ ہے
مجھ کو بھی یہ دنیا نہیں راس آئی ادھر آ

مظفر حنفی




اس نے مجھ کو یاد فرمایا یقیناً
جسم میں آیا ہوا ہے زلزلہ سا

مظفر حنفی




یوں پلک پر جگمگانا دو گھڑی کا عیش ہے
روشنی بن کر مرے اندر ہی اندر پھیل جا

مظفر حنفی




اس شہر کا دستور ہے رشتوں کا بھلانا
تجدید مراسم کے لئے ہاتھ نہ باندھوں

مظفر ایرج




انداز غزل آپ کا کیا خوب ہے رزمیؔ
محسوس یہ ہوتا ہے قلم توڑ دیا ہے

مظفر رزمی




خود پکارے گی جو منزل تو ٹھہر جاؤں گا
ورنہ خوددار مسافر ہوں گزر جاؤں گا

مظفر رزمی