EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

چھوٹے ہیں ایسے بار سفر سے تمام لوگ
جیسے کسی کے دوش پہ سر بھی نہیں رہا

محمد خالد




ہاں میں شکستہ دل ہوں مگر آئنہ تو ہوں
تو اپنا رنگ دیکھ مرے حال پر نہ جا

محمد خالد




کف صیاد دام خوش نما زنجیر و زنداں تک
اسیری عمر کی ہوگی مگر ترتیب سے ہوگی

محمد خالد




کون سنتا ہے ہواؤں کی عجب سرگوشیاں
اور جاتی ہیں ہوائیں در بدر کس کے لیے

محمد خالد




پہلے سب آوازیں اک شور میں ڈھلتی ہیں
پھر کوئی نغمہ کانوں میں رس گھولتا ہے

محمد خالد




یہ قصۂ جاں یوں ہی مشہور نہیں ہوتا
لازم تو ہمارا تھا ملزوم تمہارا ہے

محمد خالد




دلوں سے درد دعا سے اثر نکلتا ہے
یہ کس بہشت کی جانب بشر نکلتا ہے

محمد مختار علی