EN हिंदी
ہے سفر میں کاروان بحر و بر کس کے لیے | شیح شیری
hai safar mein karwan-e-bahr-o-bar kis ke liye

غزل

ہے سفر میں کاروان بحر و بر کس کے لیے

محمد خالد

;

ہے سفر میں کاروان بحر و بر کس کے لیے
ہو رہا ہے اہتمام خشک و تر کس کے لیے

کس کی خاطر ذائقوں کی سختیوں میں ہیں ثمر
اور جھک جاتی ہے شاخ بارور کس کے لیے

کس کی خاطر ہیں بدلتے موسموں کی بارشیں
دل غمیں کس کے لیے ہے چشم تر کس کے لیے

رت جگوں میں گونجنے والی صدائیں کس کی ہیں
ہے ہنر کس کے لیے عرض ہنر کس کے لیے

کس نے زخم نارسی سے بھر دیے ہیں راستے
چارہ سازی کس لیے ہے چارہ گر کس کے لیے

لا مکاں میں کون رہتا ہے مکاں میں کیا نہیں
دشت ہیں کس کے لیے دیوار و در کس کے لیے

کس نے رکھی ہیں ہر اک منظر میں رنگیں ساعتیں
خلق فرمائے گئے ہیں بے بصر کس کے لیے

کون سنتا ہے ہواؤں کی عجب سرگوشیاں
اور جاتی ہیں ہوائیں در بدر کس کے لیے