EN हिंदी
اک ربط تھا بہ رنگ دگر بھی نہیں رہا | شیح شیری
ek rabt tha ba-rang-e-digar bhi nahin raha

غزل

اک ربط تھا بہ رنگ دگر بھی نہیں رہا

محمد خالد

;

اک ربط تھا بہ رنگ دگر بھی نہیں رہا
دیوار کیا گری کوئی در بھی نہیں رہا

اب تک ہے تو بھی اور تری ہیبت بھی بے مثال
دل وہ نہیں ہے دل میں وہ ڈر بھی نہیں رہا

کیا ہو اگر لبوں پہ ابھی تک ہے کوئی پیاس
صحرا میں جب سراب نظر بھی نہیں رہا

اس ذائقے سے اپنی شناسائی کیا ہوئی
گو شاخ وہ نہیں وہ ثمر بھی نہیں رہا

اب تک کوئی قیام کی ساعت نظر نہ آئی
درپیش اگرچہ کوئی سفر بھی نہیں رہا

چھوٹے ہیں ایسے بار سفر سے تمام لوگ
جیسے کسی کے دوش پہ سر بھی نہیں رہا

مر سے گئے ہیں سنگ ملامت کے ولولے
سر میں جنون عرض ہنر بھی نہیں رہا