کس جفا کار سے ہم عہد وفا کر بیٹھے
آخر اس بات نے اک روز پشیمان کیا
محمد امان نثار
کیا فسوں تو نے خدا جانے یہ ہم پر مارا
تجھ سے پھرتا نہیں دل ہم نے بہت سر مارا
محمد امان نثار
مت منہ سے نثارؔ اپنے کو اے جان برا کہہ
ہے صاحب غیرت کہیں کچھ کھا کے نہ مر جائے
محمد امان نثار
مجھ میں اور ان میں سبب کیا جو لڑائی ہوگی
یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی
محمد امان نثار
تھا جنہیں حسن پرستی سے ہمیشہ انکار
وہ بھی اب طالب دیدار ہیں کن کے ان کے
محمد امان نثار
داور حشر مرا نامۂ اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
محمد دین تاثیر
ہمیں بھی دیکھ کہ ہم آرزو کے صحرا میں
کھلے ہوئے ہیں کسی زخم آرزو کی طرح
محمد دین تاثیر

