چلتے چلتے یوں ہی قدم جب ڈولتا ہے
اک نیا رستہ اپنی بانہیں کھولتا ہے
تن جاتی ہے موت کی چادر دنیا پر
پھر کوئی ہاتھ جہاں کی نبض ٹٹولتا ہے
روح کے اندر پھر کسی بے کل لمحے میں
کوئی پرندہ اڑنے کو پر تولتا ہے
پہلے سب آوازیں اک شور میں ڈھلتی ہیں
پھر کوئی نغمہ کانوں میں رس گھولتا ہے
یہ اظہار بھی جبر کی صورت ہے کوئی
ہم جو نہ بولیں لہو رگوں میں بولتا ہے

غزل
چلتے چلتے یوں ہی قدم جب ڈولتا ہے
محمد خالد