ہم شعر سناتے ہیں مفہوم تمہارا ہے
گم کردۂ منزل ہیں معلوم تمہارا ہے
اوراق پریشاں ہیں نقاش کسے جانیں
بس حرف ہمارے ہیں مرقوم تمہارا ہے
یہ نغمۂ ہستی بھی منسوب تمہیں سے ہے
آہنگ تمہارا ہے منظوم تمہارا ہے
جو عشق سمجھ بیٹھے کب ان کو خبر ہوگی
ہر رنگ میں اک جلوۂ معصوم تمہارا ہے
جھولی میں فقیروں کی بخشی ہوئی دولت ہے
دل کا جو ستارہ ہے مقسوم تمہارا ہے
یہ قصۂ جاں یوں ہی مشہور نہیں ہوتا
لازم تو ہمارا تھا ملزوم تمہارا ہے
کیوں شہر کی گلیوں میں اذکار یہ رہتا ہے
مرحوم تمہارا تھا مرحوم تمہارا ہے

غزل
ہم شعر سناتے ہیں مفہوم تمہارا ہے
محمد خالد