اجڑے ہوئے ہیں شہر کے دیوار و در نہ جا
دل کی روایتیں ہیں بڑی معتبر نہ جا
پہنا نہ خواہشوں کو لباس برہنگی
شب کی مسافتوں میں برنگ سحر نہ جا
کچھ دیر اور گرمئ بازار دیکھ لے
لے کر ہجوم حسرت نظارہ گھر نہ جا
ہاں میں شکستہ دل ہوں مگر آئنہ تو ہوں
تو اپنا رنگ دیکھ مرے حال پر نہ جا
وہ بھی تو آئے گا سر میدان آرزو
آخر ہوا چلے گی ابھی سے بکھر نہ جا
لوگوں نے کر لیے ہیں مقفل مسام بھی
خالد مثال دست صبا در بدر نہ جا

غزل
اجڑے ہوئے ہیں شہر کے دیوار و در نہ جا
محمد خالد