EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

غیرممکن تھا فصیلیں فاصلوں کی پھاندنا
قسمتوں کے فیصلے تھے تیرے میرے درمیاں

محمد فخرالحق نوری




فیروزؔ میں نے خود ہی سلاسل پہن لیے
ممکن نہیں ہے اب تو رہائی مرے لیے

محمد فیروز شاہ




اندھیری شام تھی بادل برس نہ پائے تھے
وہ میرے پاس نہ تھا اور میں کھل کے رویا تھا

محمد اظہار الحق




گھرا ہوا ہوں جنم دن سے اس تعاقب میں
زمین آگے ہے اور آسماں مرے پیچھے

محمد اظہار الحق




کوئی زاری سنی نہیں جاتی کوئی جرم معاف نہیں ہوتا
اس دھرتی پر اس چھت کے تلے کوئی تیرے خلاف نہیں ہوتا

محمد اظہار الحق




ترا پاؤں شام پہ آ گیا تھا کہ چاند تھا
ترا ہجر صبح کو جل اٹھا تھا کہ پھول تھا

محمد اظہار الحق




اول عشق کی ساعت جا کر پھر نہیں آئی
پھر کوئی موسم پہلے موسم سا نہیں دیکھا

محمد خالد